The Poetry of (عمیر نجمی)Umair Najmi : Verses of the Heart

عمیر نجمی

عمیر نجمی ایک باصلاحیت شاعر ہیں جن کا کام بھرپور، اشتعال انگیز منظر کشی کے ساتھ گہرے خود شناسی کو ملاتا ہے۔ ان کی شاعری میں اکثر شناخت، محبت اور انسانی حالت کے موضوعات کی کھوج ہوتی ہے، جو قارئین کے ساتھ گہری جذباتی سطح پر گونجتی ہے۔ اپنے گیت کے انداز اور فکر انگیز آیات کے لیے جانا جاتا ہے، عمیر کی تحریر اپنی سادگی اور گہرائی دونوں میں سحر انگیز ہے۔ وہ شاعری کو سماجی تبصرے کے ذریعہ استعمال کرنے، عصری مسائل کو حساسیت اور بصیرت کے ساتھ حل کرنے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ عمیر نجمی اپنے کلام کے ذریعے اپنے سامعین میں غور و فکر اور گفتگو کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ

ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ
نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ

دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ

جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ

کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ

یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہور ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ

کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ

ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ

عمیر نجمی

مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا

مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا
جبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا

سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہے
وہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا

مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوا
میں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا

ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہا
جدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا

شروع دن سے گھر میں سن رہا تھا اس لئے
سکوت میری مادری زبان بن گیا

اور ایک دن کھنچی ہوئی لکیر مٹ گئی
گماں یقیں بنا یقیں گمان بن گیا

کئی خفیف غم ملے ملال بن گئے
ذرا ذرا سی کترنوں سے تھان بن گیا

عمیر نجمی

مرے بڑوں نے عادتاً چنا تھا ایک دشت

مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا
جبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا

سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہے
وہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا

مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوا
میں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا

ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہا
جدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا

شروع دن سے گھر میں سن رہا تھا اس لئے
سکوت میری مادری زبان بن گیا

اور ایک دن کھنچی ہوئی لکیر مٹ گئی
گماں یقیں بنا یقیں گمان بن گیا

کئی خفیف غم ملے ملال بن گئے
ذرا ذرا سی کترنوں سے تھان بن گیا

مرے بڑوں نے عادتاً چنا تھا ایک دشت
وہ بس گیا رحیمؔ یار خان بن گیا

عمیر نجمی

دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا

دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا
اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا

شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی
بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا

ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں
وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا

میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں
وہ جنہیں کاتب تقدیر نہیں کھینچ سکا

میں نے تصویر کشی کر کے جواں کی اولاد
ان کے بچپن کی تصاویر نہیں کھینچ سکا

مجھ پہ اک ہجر مسلط ہے ہمیشہ کے لئے
ایسا جن ہے کہ کوئی پیر نہیں کھینچ سکا

تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا

عمیر نجمی

میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد

میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد
مجھ سے کچھ بن نہیں پایا تری تصویر کے بعد

مشترک دوست بھی چھوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر
یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد

یار تصویر میں تنہا ہوں مگر لوگ ملے
کئی تصویر سے پہلے کئی تصویر کے بعد

دوسرا عشق میسر ہے مگر کرتا نہیں
کون دیکھے گا پرانی نئی تصویر کے بعد

بھیج دیتا ہوں مگر پہلے بتا دوں تجھ کو
مجھ سے ملتا نہیں کوئی مری تصویر کے بعد

خشک دیوار میں سیلن کا سبب کیا ہوگا
ایک عدد زنگ لگی کیل تھی تصویر کے بعد

عمیر نجمی

میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی

میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی
میرے اندازے سے ہر بار زیادہ نکلی

کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ
میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی

یہ مری موت کے اسباب میں لکھا ہوا ہے
خون میں عشق کی مقدار زیادہ نکلی

کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ
مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی

عمیر نجمی

جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا

جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا

میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقش قدم بنے گا

ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحد مقدس مزار ہوگی
یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا

تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل
مری چھٹی حس بتا رہی ہے یہ رشتہ ٹوٹے گا غم بنے گا

مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیسا
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا

سنا ہوا ہے جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اس رائیگانی سے کچھ اہم بنے گا

کہ شاہزادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اس پر متفق ہیں
یہ جوں ہی حاکم بنا محل کا وسیع رقبہ حرم بنے گا

میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال اس کو شروع سے سن ردھم بنے گا

سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ‌ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا

عمیر نجمی

میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد

میں برش چھوڑ چکا آخری تصویر کے بعد
مجھ سے کچھ بن نہیں پایا تری تصویر کے بعد

مشترک دوست بھی چھوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر
یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد

یار تصویر میں تنہا ہوں مگر لوگ ملے
کئی تصویر سے پہلے کئی تصویر کے بعد

دوسرا عشق میسر ہے مگر کرتا نہیں
کون دیکھے گا پرانی نئی تصویر کے بعد

بھیج دیتا ہوں مگر پہلے بتا دوں تجھ کو
مجھ سے ملتا نہیں کوئی مری تصویر کے بعد

خشک دیوار میں سیلن کا سبب کیا ہوگا
ایک عدد زنگ لگی کیل تھی تصویر کے بعد

عمیر نجمی

اتنا چلتا ہوں کہ بیٹھے ہوئے تھک جاتا ہوں

تین کونوں سے نکلتے ہیں گھٹن، خوف، سکوت

میں سرکتا ہوا چوتھے میں دبک جاتا ہوں

ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے لمحہ بھر کو

دل ٹھہر جاتا ہے، میں آپ دھڑک جاتا ہوں

بھاگتا ہوں کہ مساموں سے نکل جائے نمی

ورنہ کچھ روز میں آنکھوں سے چھلک جاتا ہوں

گھر سے میں کھینچ کے لاتا ہوں سڑک تک خؤد کو

پھر جدھر لے کے چلی جائے سڑک، جاتا ہوں

غم کی حدت نے پکائی ہے کچھ ایسے مری خاک

جب بھی دیوار سے ٹکراؤں، کھنک جاتا ہوں

کتنا آسان ہے تنہائی کو دہرا کرنا

صرف کمرے میں لگے آئینے تک جاتا ہوں

عمیر نجمی

جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا

یہ کُل مِلا کر بھی ہجر کی رات میرے گِریے سے کم بنے گا

میں دشت ہوں’ یہ مغالطہ ہے’ نہ شاعرانہ مبالغہ ہے

مِرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ ‘ نقشِ قدم بنے گا

ہمارا لاشہ بہاو ورنہ لحَــد مقدّس مزار ہو گی

یہ سرخ کُرتا جلاؤ ورنہ’ بغاوتوں کا علَم بنے گا

تو کیوں نہ ہم پان سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل !

مِری چَھٹی حِس بتا رہی ہے، یہ رشتہ ٹوٹے گا، غم بنے گا

مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پَن قدرتی ہے’ سو اعتراض کیسا؟

شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا’ یہ طے ہے’ خم بنے گا

سنا ہوا ہے ۔۔۔ جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے’ سو جی رہے ہیں

بنا ہوا ہے یقیں کہ اِس رایگانی سے کچھ اہَــم بنے گا

کہ شاہ زادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اِس پہ متّفق ہیں

یہ جوں ہی حاکِم بنا، محَل کا وســیع رقبہ حرم بنے گا

میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا

صدا کے وقفے نکال’ اِس کو شروع سے سُن، ردھم بنے گا !

سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز

پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا، رکو ! خدا کی قسَم ! بنے گا

عمیر نجمی

بچھڑ گئے تو یہ دل عمر بھر لگے گا نہیں

لگے گا لگنے لگا ہے مگر ۔۔۔ لگےگا نہیں

میں تیرا حسن محبت سے کند کر چکا ہوں

یہ کیل اب کسی دیوار پر لگے گا نہیں

نہیں لگے گا اُسے دیکھ کر مگر خوش ہے

میں خوش نہیں ہوں مگر دیکھ کر لگے گا نہیں

تمہارے ظرف سے بڑھ کر ہے

دوست عشق کا حجم

یہ ایک گملا ہے اس میں شجر لگے گا نہیں

تو دل میں آ ،یہاں رہنے کا انتظام نہ کر

میں جانتا ہوں ترا دل ادھر لگے گا نہیں

عمیر نجمی

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *