Jon Elia: Capturing Life’s Ridiculousness Best Through Words”

Jon Elia is a famous Urdu poet whose poetry deeply reflects the feelings of existential anguish, loneliness and despair. The complications of life, the pain of love and the burden of knowledge are prominent in his poems. Elia’s poetry boldly expresses the intellectual confusion and questions of human existence. Even today, his poetry deeply affects the hearts of readers.

ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں

ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں

ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں

ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں

اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں

ہو تری خاک آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں

ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں

دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

(جون ایلیا) Jon Elia

نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیں

نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیں
ترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں

تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش تری یادگار بھی اب نہیں

نہ گلے رہے نہ گماں رہے نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاط وعدۂ وصل کیا ہمیں اعتبار بھی اب نہیں

رہے نام رشتۂ رفتگاں نہ شکایتیں ہیں نہ شوخیاں
کوئی عذر خواہ تو اب کہاں کوئی عذر دار بھی اب نہیں

کسے نذر دیں دل و جاں بہم کہ نہیں وہ کاکل خم بہ خم
کسے ہر نفس کا حساب دیں کہ شمیم یار بھی اب نہیں

وہ ہجوم دل زدگاں کہ تھا تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا
ترے آستانے کی خیر ہو سر رہ غبار بھی اب نہیں

وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
کسی جاں نثار کا ذکر کیا کوئی سوگوار بھی اب نہیں

نہیں اب تو اہل جنوں میں بھی وہ جو شوق شہر میں عام تھا
وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو سر کوئے یار بھی اب نہیں

(جون ایلیا) Jon Elia

جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام

جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام
ذات سے اپنی نہ ہلنے کا سفر رکھا ہے نام

پڑ گیا ہے اک بھنور اس کو سمجھ بیٹھے ہیں گھر
لہر اٹھی ہے لہر کا دیوار و در رکھا ہے نام

نام جس کا بھی نکل جائے اسی پر ہے مدار
اس کا ہونا یا نہ ہونا کیا، مگر رکھا ہے نام

ہم یہاں خود آئے ہیں لایا نہیں کوئی ہمیں
اور خدا کا ہم نے اپنے نام پر رکھا ہے نام

چاک چاکی دیکھ کر پیراہن پہنائی کی
میں نے اپنے ہر نفس کا بخیہ گر رکھا ہے نام

میرا سینہ کوئی چھلنی بھی اگر کر دے تو کیا
میں نے تو اب اپنے سینے کا سپر رکھا ہے نام

دن ہوئے پر تو کہیں ہونا کسی بھی شکل میں
جاگ کر خوابوں نے تیرا رات بھر رکھا ہے نام

(جون ایلیا) Jon Elia

عجب اک طور ہے جو ہم ستم ایجاد رکھیں

عجب اک طور ہے جو ہم ستم ایجاد رکھیں
کہ نہ اس شخص کو بھولیں نہ اسے یاد رکھیں

عہد اس کوچۂ دل سے ہے سو اس کوچے میں
ہے کوئی اپنی جگہ ہم جسے برباد رکھیں

کیا کہیں کتنے ہی نکتے ہیں جو برتے نہ گئے
خوش بدن عشق کریں اور ہمیں استاد رکھیں

بے ستوں اک نواحی میں ہے شہر دل کی
تیشہ انعام کریں اور کوئی فرہاد رکھیں

آشیانہ کوئی اپنا نہیں پر شوق یہ ہے
اک قفس لائیں کہیں سے کوئی صیاد رکھیں

ہم کو انفاس کی اپنے ہے عمارت کرنی
اس عمارت کی لبوں پر ترے بنیاد رکھیں

(جون ایلیا) Jon Elia

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *