Ali Zaryoun (علی زریون)is a contemporary Iranian poet known for his profound and expressive poetry. While detailed biographical information about him is relatively scarce in mainstream sources, his work is recognized for its emotional depth, simplicity, and innovative use of language. He often explores themes such as love, loss, identity, and the human experience, connecting with readers through both traditional and modern poetic forms.
Zaryoun’s poetry may blend classical Persian styles with modern sensibilities, which allows his works to resonate with a wide range of audiences. His unique voice and literary contributions have earned him a place in contemporary Iranian poetry, where his writings continue to be appreciated by readers and scholars alike.
If you are looking for more specific details about his life or works, please let me know!
علی زریون ایک معاصر ایرانی شاعر ہیں جو اپنی گہری اور جذباتی شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ اگرچہ ان کی زندگی کے بارے میں تفصیلی معلومات دستیاب نہیں ہیں، لیکن ان کے اشعار کی سادگی اور زبان کی منفرد استعمال کی وجہ سے وہ ادب کی دنیا میں نمایاں ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، غم، شناخت اور انسانی تجربات جیسے موضوعات کو بڑی باریکی سے بیان کیا گیا ہے۔
علی زریون اپنی شاعری میں کلاسیکی فارسی انداز اور جدید خیالات کو ملا کر ایک خاص اسلوب تخلیق کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اشعار آج کے قارئین کے لیے بھی دل کو چھو جانے والے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ایک ایسی سادگی اور گہرائی پائی جاتی ہے جو ہر عمر کے افراد کو متاثر کرتی ہے۔
اگر آپ ان کی شاعری یا زندگی کے بارے میں مزید تفصیلات چاہتے ہیں، تو براہ کرم بتائیں!
چادر کی عزت کرتا ہوں اور پردے کو مانتا ہوں
ہر پردہ پردہ نہیں ہوتا اتنا میں بھ جانتا ہوں
میں جانتا ہوں وہ غصے میں کس حد تک جا سکتی ہے
اپنی زبان پہ قابو رکھو میں اس کو پہچانتا ہوں
سارے مرد ہی اک جیسے ہیں تم نے کیسے کہہ ڈالا
میں بھی تو اک مرد ہوں تم کو خود سے بہتر مانتا ہوں
میں نے اس سے پیار کیا ہے ملکیت کا دعوٰی نہیں
وہ جس کے بھی ساتھ ہے میں اس کو بھی اپنا مانتا ہوں
علی زریون
کہانی چھوڑ مت دینا کہ اس میں
ابھی مجھ سے بھی کچھ پاگل پڑے ہیں
علیؔ اس نے پکارا ہے مجھے کیا
دیے کیسے اچانک جل پڑے ہیں
علی زریون
نیــا ذائـــقہ ہے مـــزہ مختلف ہے
غزل چکھ کے دیکھ اِس دفعہ مختلف ہے
سنو ! تم نے دنیا پھری ہے پرندو
یہ تنہائی کیا ہر جگہ مختلف ہے؟
صدا کام کیسے کرے گی یہاں پر
گلـی تو وہـی ہے گلـہ مختلف ہے
ہماری تمہاری سزا اک نہیں کیوں؟
ہمــاری تمہاری خــطا مختلف ہے؟
تم اب تک منافق دلوں میں رہی ہو
میرے دل کی آب و ہوا مختلف ہے
وہ روتے ہوئے ہنــس پڑا اور بولا
خــدا آدمــی سے بــڑا مختلف ہے
علی زریون
عجیب رنگ تھا درویش کے لبادے کا
کہ جس نے دیکھا ، وہ پھر تھا اسی کے جادے کا
بوقت – عصر !! کہ جب آخری چراغ بجھا
جمال دیکھنے والا تھا شاھزادے کا
تھکا ہوا ہوں !! تری لے میں آنا چاہتا ہوں
“اساوری” میں ذرا گنگناؤ “رادھیکا”
یہ عشق تو ہے میاں کار – ارتکاز طلب
میں وحشتی ہوں کہاں مستقل ارادے کا
وہ ایک حُسن جو “زریون” کر گیا ہے مجھے
وہ ایک حُسن ہی سچا ہے اپنے وعدے کا
علی زریون
تجھ پہ جو بھی زوال آیا ہے
سب ترا ہی کیا کرایا ہے
اے ستارے !! چراغ کو تو نے
میرے بارے میں کیا بتایا ہے ؟؟؟
خواب نے آج اپنی خلوت میں
کاسنی رنگ کو بلایا ہے
اس میں میرا کوئی قصور نہیں
مجھے دریا نے خود بچایا ہے
شاہزادہ یونہی اداس نہیں
شاھزادی نے کچھ چھپایا ہے
صبح کے وقت تیری یاد کا پل
کیسی معصومیت سے آیا ہے
اے بہت تیز حسن !! دھیان رہے
مجھ پے اک سانولی کا سایا ہے
اپنی تعظیم کر،کہ میں نے تجھے
اپنی آنکھوں کا غم سنایا ہے
ہارنے کے لئے ہی بھیجھا تھا
اور دل ہار کر ہی آیا ہے
جس طرح تم منا رہے ہو مجھے
اس طرح کوئی مآن پایا ہے ؟؟؟
سرکش عشق ہوں علی زریون
اپنے چرنوں میں سر جھکایا ہے
علی زریون
زنِ حسین تھی اور پھول چٗن کے لاتی تھی
میں شعر کہتا تھا وہ داستاں سناتی تھی
منافقوں کو میرا نام زہر لگتا تھا
وہ جان بوجھ کے غصہ انھیں دلاتی
میں تیغ لے کے نکلتا تو لوگ دیکھتے تھے
وہ اسم پڑہتی تھی اور بھیڑ چھٹتی جاتی تھی
عرب لہو تھا رگوں میں، بدن سنہرا تھا
وہ مسکراتی نہیں تھی، دیئے جلاتی تھی
اٗسے کسی سے محبت تھی اور وہ میں نہیں تھا
یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رولاتی تھی
یہ پھول دیکھ رہے ہو، یہ اسکا لہجہ تھا
یہ جھیل دیکھ رہے ہو، یہاں وہ آتی تھی
میں کچھ بتا نہیں سکتا وہ میری کیا تھی علیؔ
کہ اسکو دیکھ کے بس اپنی یاد آتی تھی
علی زریون
بات مقدر کی ہے ساری بخت کا لکھا مارتا ہے
کچھ سجدوں میںمر جاتے ہیں،کچھ کوسجدہ مارتاہے
صرف ہم ہی ہیں جو تجھ پر پورےکےپورےمرتےہیں
ورنہ کسی کو تیری آنکھیں کسی کو لہجہ مارتا ہے
علی زریون
میرے لیے تو عشق کا بادہ ہے شاعری
آدھا سرور تم ہو تو آدھا ہے شاعری
ہاں اس لیے بھی عشق ہی لکھتا ہوں میں علی
میرا کسی سے آخری وعدہ ہے شاعری
علی زریون
مصلے پہ سجدوں کا غم ایلیا
ہے القدس زیرِ ستم ایلیا
لہو کی منادی سے وادی بھری
مدد یا الہی کرم ایلیا
دیارِ مقدّس کی آتش بجھے
بہت کم ہے آنکھوں کا نم ایلیا !
اسے کوئی طعنہ جگاتا نہیں
اس امت کی غیرت عدم ایلیا
دھواں ہو گئیں طاق راتیں مری !
مجھے کھا گیا یہ الم ایلیا
کہوں العجل العجل العجل
رخِ ایلیا ہو بہم ایلیا
بھلا ایک مصرعے میں کیسے کروں !
میں زخمِ فلسطیں رقم ایلیا
وبا سانس روکے کھڑی ہے یہاں
دعا کا نہ گھٹ جائے دم ایلیا
میں ہوں کیا ! فقط ایک شاعر علی !
اٹھاتا ہوں پھر بھی عَلَم ایلیا
علی زریون
الاؤ میں دھمال کر رہا ہوں میں
اور آگ سے وصال کر رہا ہوں میں
تجھے تو ہنس کے الوداع کہہ دیا
اور اب جو اپنا حال کر رہا ہوں میں ؟؟
پتا بھی ہے نہیں سنے گی وہ، مگر
پتا ہے ! پھر بھی کال کر رہا ہوں میں
خدا کا شکر کر کہ تجھ سے دور ہوں
ابھی ترا خیال کر رہا ہوں میں
علی غزل میں دستخط تھا عشق کا
وہ دستخط بحال کر رہا ہوں میں !
علی زریون
سخت بزدل ہیں کہ جو عشق میں تھک جاتے ہیں
میں تو ہاں تم سے بچھڑ کر بھی تمھارا رہوں گا
سانس بن جاوں گا ہر گھٹتے ہوئے سینے کی
ہر دُکھے دل کے لئے ایک سہارا رہوں گا
علی زریون
تم کسی دن جو چمکتا ہوا دیکھو مجھ کو
جان لینا یہ زرِ عشق کی تابانی ہے
میرے شبدوں میں اگر اپنا سراپا دیکھو
سوچ لینا یہ نمِ ہجر کی حیرانی ہے
علی زریون
کسی دربار کی آمین بھری خلوت میں
عین ممکن ہے تمھیں میرا پتا مل جائے
یہ بھی ہو سکتا ہے میں تم کو ملوں یا نہ ملوں
لیکن اس کھوج میں خود تم کو خدا مل جائے
علی زریون
تم کسی دن جو چمکتا ہوا دیکھو مجھ کو
جان لینا یہ زرِ عشق کی تابانی ہے
میرے شبدوں میں اگر اپنا سراپا دیکھو
سوچ لینا یہ نمِ ہجر کی حیرانی ہے
کسی دربار کی آمین بھری خلوت میں
عین ممکن ہے تمھیں میرا پتا مل جائے
یہ بھی ہو سکتا ہے میں تم کو ملوں یا نہ ملوں
لیکن اس کھوج میں خود تم کو خدا مل جائے
اپنے ٹیرس سے نظر کرنا کبھی مشرقی سمت
نفس گم کردہ نظاروں میں ملوں گا تم کو
اور شبِ قدر تلاشو تو مجھے بھی تکنا
طاق راتوں کے ستاروں میں ملوں گا تم کو
سخت بزدل ہیں کہ جو عشق میں تھک جاتے ہیں
میں تو ہاں ! تم سے بچھڑ کر بھی تمھارا رہوں گا
سانس بن جاوں گا ہر گھٹتے ہوئے سینے کی
ہر دُکھے دل کے لئے ایک سہارا رہوں گا
کیا کلیمی سے بھلا عشق کلامی کم ہے ؟
بادشاہی نہ سہی ! دل کی غلامی کم ہے ؟
کیا یہ کم ہے؟ کہ تمھیں دیکھوں، دِکھے کُل دنیا
کیا یہ کم ہے ؟ کہ لکھوں عشق ! پڑھے کل دنیا
یارِ من عشق طلب عشق میں سب عشق سند
جذبِ من عشق ازل عشق ابد عشق احد !
عشق دربار بھی سُن کار بھی سرکار بھی عشق
عشق تلوار بھی آزار بھی دلدار بھی عشق
عشق ہو جائے تو کچھ اور کہاں ہوتا ہے !
کچھ نہیں ہوتا وہاں ! عشق جہاں ہوتا ہے !
علی زریون