جون ایلیا کی زندگی پر بہترین شاعری میں انسان کی تنہائی، مایوسی اور وجودی کرب کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کی شاعری میں فکری الجھن، محبت کا درد اور زندگی کی بے بسی کو گہرے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ایلیا کی شاعری میں انسان کی خود کی تلاش اور دکھوں کی شدت نمایاں ہے، جہاں خوشی اور سکون ایک خواب کی طرح دور نظر آتے ہیں۔ وہ علم، محبت اور روحانیت کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں، اور زندگی کے غیر یقینی اور پیچیدہ پہلوؤں کو بے باکی سے بیان کرتے ہیں۔
جون ایلیا کی زندگی کے بارے میں شاعری ہمیشہ دکھ، تنہائی، اور دل کی گہرائیوں کو چھوتی ہے، جو ان کے اشعار کو آج بھی زندہ اور متعلقہ بناتی ہے۔

اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے بس اپنا سامنا در پیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز و ادا وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
عجب الزام ہوں زمانے کا
کہ یہاں سب کے سر گیا ہوں میں
کبھی خود تک پہنچ نہیں پایا
جب کہ واں عمر بھر گیا ہوں میں
تم سے جاناں ملا ہوں جس دن سے
بے طرح خود سے ڈر گیا ہوں میں
کوئے جاناں میں سوگ برپا ہے
کہ اچانک سدھر گیا ہوں میں
جون ایلیا

ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے
ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے
ہجر میں کرنا ہے کیا؟ یہ تو بتاتے جایئے
جاتے جاتے آپ اِتنا کام تو کیجے مرا
یاد کا سارا سروساماں جلاتے جایئے
رہ گئی امّید تو برباد یو جاؤں گا میں
جایئے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جایئے
وہ گلی ہے اک شرابی چشم کافر کی گلی
اُس گلی میں جایئے تو لڑکھڑاتے جایئے
آپ کو جب مجھ سے شکوہ ہی نہیں کوئی، تو پھر
آگ ہی دل میں لگانی ہے؟ لگاتے جایئے
آپ کا مہمان ہوں میں، آپ میرے میزبان
سو مجھے زہرِ مروّت تو پلاتے جایئے
ہے سرِ شب اور مرے گھر میں نہیں کوئی چراغ
آگ تو اِس گھر میں جانانہ لگاتے جایئے
جون ایلیا

ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں
اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں
کیا مل گیا ضمیر ہنر بیچ کر مجھے
اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں
روحوں کے پردہ پوش گناہوں سے بے خبر
جسموں کی نیکیاں ہی گناتا رہا ہوں میں
تجھ کو خبر نہیں کہ ترا کرب دیکھ کر
اکثر ترا مذاق اڑاتا رہا ہوں میں
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
اک سطر بھی کبھی نہ لکھی میں نے تیرے نام
پاگل تجھی کو یاد بھی آتا رہا ہوں میں
جس دن سے اعتماد میں آیا ترا شباب
اس دن سے تجھ پہ ظلم ہی ڈھاتا رہا ہوں میں
اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا
ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں
بیدار کر کے تیرے بدن کی خود آگہی
تیرے بدن کی عمر گھٹاتا رہا ہوں میں
کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی
بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں
جون ایلیا

نہیں شوریدگانِ شہر میں وہ سوزِ جاں اب کے
نہیں شوریدگانِ شہر میں وہ سوزِ جاں اب کے
ہیں شامیں سوختہ جانوں کی بے شورِ فغاں اب کے
ہیں شوقِ گرمئ آغوش کے جذبے زمستانی
شب اندر شب ہو جیسے برفباری کا سماں اب کے
کوئی لہجہ یہاں شعلے پہن کے اب نہیں آتا
نہیں سایہ فگن محفل پہ سانسوں کا دھواں اب کے
سرود و ساز ہیں سرما فروشِ حلقۂ یاراں
دلوں میں زمہریری کپکپی ہے پر فشاں اب کے
ستم ہے رشتہ ہائے آشتی کی پاسداری ہے
مرے یارو! تمہارے اور خدا کے درمیاں اب کے
لباسِ آتشِ انکارِ ابلیسی جلا ڈالا
یقیں کے ستر پوشانِ گماں نے بے گماں اب کے
ہوئی گم اے گروہِ دل تپاں، آتش بجاں آخر
ترے احساس اور انفاس کی سوزش کہاں اب کے
ہے اک خورشیدِ یخ بستہ کا پرتو خاک پر غلطاں
ہے زندہ دھوپ کو ترسی ہوئی یہ بستیاں اب کے
سیاہی کی لپک ہے اور ہیں آتشکدے اپنے
کہاں پائیں فروغِ چشمِ جاں زردشتیاں اب کے
در و دیوار یخ ہیں اور ہوائیں زمہریری ہیں
لبِ شکوہ کھلے بھی تو صدائیں زمہریری ہیں
دلوں کی فصل برفانی ہے اور شیوے زمستانی
وفائیں زمہریری ہیں، جفائیں زمہریری ہیں
کسے کس سے گلہ ہو اور گلے کا کیا صلہ ٹھہرے
سماعت یخ زدہ ہے، التجائیں زمہریری ہیں
کیا خونِ جگر کا خوش گمانی میں زیاں ہم نے
شفق کے رنگ لکھے داستاں در داستاں ہم نے
فضا ہے ایسی برفانی کہ سانسیں جم کے رہ جائیں
نہ کی ہوتی یہاں سینے کی گرمی رائیگاں ہم نے
نفس ٹھٹھرے ہوئے ہیں شعلہ ہائے لب کے موسم میں
مجھے سردی زیادہ ہی لگے گی اب کے موسم میں
جون ایلیا
